صحیح بخاری

ذبیح اور شکار کے بیان میں

شکار پر بسم اللہ پڑھنا

وَقَوْلِهِ تَعَالَى: ‏‏‏‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ‏‏‏‏ إِلَى قَوْلِهِ: ‏‏‏‏عَذَابٌ أَلِيمٌ‏‏‏‏. وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: ‏‏‏‏أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ‏‏‏‏ إِلَى قَوْلِهِ: ‏‏‏‏فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ‏‏‏‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْعُقُودُ الْعُهُودُ، مَا أُحِلَّ وَحُرِّمَ ‏‏‏‏إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ‏‏‏‏ الْخِنْزِيرُ. ‏‏‏‏يَجْرِمَنَّكُمْ‏‏‏‏ يَحْمِلَنَّكُمْ ‏‏‏‏شَنَآنُ‏‏‏‏ عَدَاوَةُ ‏‏‏‏الْمُنْخَنِقَةُ‏‏‏‏ تُخْنَقُ فَتَمُوتُ ‏‏‏‏الْمَوْقُوذَةُ‏‏‏‏ تُضْرَبُ بِالْخَشَبِ يُوقِذُهَا فَتَمُوتُ ‏‏‏‏وَالْمُتَرَدِّيَةُ‏‏‏‏ تَتَرَدَّى مِنَ الْجَبَلِ ‏‏‏‏وَالنَّطِيحَةُ‏‏‏‏ تُنْطَحُ الشَّاةُ، فَمَا أَدْرَكْتَهُ يَتَحَرَّكُ بِذَنَبِهِ أَوْ بِعَيْنِهِ فَاذْبَحْ وَكُلْ.

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان پس تم اعتراض کرنے والے کافروں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ المائدہ میں فرمان کہ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ تمہیں کچھ شکار دکھلا کر آزمائے گا جس تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے۔ الآیۃ اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ المائدہ میں فرمان کہ تمہارے لیے چوپائے مویشی حلال کئے گئے سوا ان کے جن کا ذکر تم سے کیا جاتا ہے (مردار اور سور وغیرہ) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ پس تم (ان کافروں) سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا«العقود» سے مراد حلال و حرام سے متعلق عہد و پیمان۔ «إلا ما يتلى عليكم‏» سے سور، مردار، خون وغیرہ مراد ہے۔ «يجرمنكم‏»باعث بنے۔ «شنآن‏» کے معنی عداوت دشمنی۔ «المنخنقة‏» جس جانور کا گلا گھونٹ کر مار دیا گیا ہو اور اس سے وہ مر گیا ہو۔ «الموقوذة‏»جسے لکڑی یا پتھر سے مارا جائے اور اس سے وہ مر جائے۔ «المتردية‏» جو پہاڑ سے پھسل کر گر پڑے اور مر جائے۔ «النطيحة‏» جس کو کسی جانور نے سینگ سے مار دیا ہو۔ پس اگر تم اسے دم ہلاتے ہوئے یا آنکھ گھماتے ہوئے پاؤ تو ذبح کر کے کھا لو کیونکہ یہ اس کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔

شکار پر بسم اللہ پڑھنا

حد یث نمبر - 5475

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "مَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ"، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ أَخْذَ الْكَلْبِ ذَكَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ وَجَدْتَ مَعَ كَلْبِكَ أَوْ كِلَابِكَ كَلْبًا غَيْرَهُ فَخَشِيتَ أَنْ يَكُونَ أَخَذَهُ مَعَهُ وَقَدْ قَتَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَأْكُلْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تَذْكُرْهُ عَلَى غَيْرِهِ".

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پر کے تیر یا لکڑی یا گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس کی نوک شکار کو لگ جائے تو کھا لو لیکن اگر اس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے تو وہ نہ کھاؤ کیونکہ وہ«موقوذة‏» ہے اور میں نے آپ سے کتے کے شکار کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جسے وہ تمہارے لیے رکھے (یعنی وہ خود نہ کھائے) اسے کھا لو کیونکہ کتے کا شکار کو پکڑ لینا یہ بھی ذبح کرنا ہے اور اگر تم اپنے کتے یا کتوں کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ اور تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے نے شکار اس دوسرے کے ساتھ پکڑا ہو گا اور کتا شکار کو مار چکا ہو تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام(بسم اللہ پڑھ کر) اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا۔

بے پر کے تیر یعنی لکڑی گز وغیرہ سے شکار کرنے کا بیان

وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ فِي الْمَقْتُولَةِ بِالْبُنْدُقَةِ، ‏‏‏‏‏‏تِلْكَ الْمَوْقُوذَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَهُ سَالِمٌ، ‏‏‏‏‏‏والْقَاسِمُ، ‏‏‏‏‏‏ومُجَاهِدٌ، ‏‏‏‏‏‏وإِبْرَاهِيمُ، ‏‏‏‏‏‏وعَطَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏والْحَسَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ الْحَسَنُ رَمْيَ الْبُنْدُقَةِ فِي الْقُرَى وَالْأَمْصَارِ وَلَا يَرَى بَأْسًا فِيمَا سِوَاهُ.

اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے غلے سے مر جانے والے شکار کے متعلق کہا کہ وہ بھی «موقوذة‏» (بوجھ کے دباؤ سے مرا ہوا ہے جو حرام ہے) اور سالم، قاسم، مجاہد، ابراہیم، عطاء اور امام حسن بصری رحمہم اللہ اجمعین نے اس کو مکروہ رکھا ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ گاؤں اور شہروں میں غلے چلانے کو مکروہ سمجھتے تھے اور ان کے سوا دوسری جگہوں (میدان، جنگل وغیرہ) میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔

بے پر کے تیر یعنی لکڑی گز وغیرہ سے شکار کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 5476

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِعْرَاضِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ فَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَأْكُلْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أُرْسِلُ كَلْبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَسَمَّيْتَ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنْ أَكَلَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَلَا تَأْكُلْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَمْ يُمْسِكْ عَلَيْكَ إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أُرْسِلُ كَلْبِي فَأَجِدُ مَعَهُ كَلْبًا آخَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَأْكُلْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى آخَرَ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی السفر نے، ان سے شعبی نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پر کے تیر یا لکڑی گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگر اس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے اور اس سے وہ مر جائے تو وہ «موقوذة‏» (مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔ میں نے سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی (شکار کے لیے) دوڑاتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھ کر شکار کے پیچھے دوڑاؤ تو وہ شکار کھا سکتے ہو۔ میں نے پوچھا اور اگر وہ کتا شکار میں سے کھا لے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر نہ کھاؤ کیونکہ وہ شکار اس نے تمہارے لیے نہیں پکڑا تھا، صرف اپنے لیے پکڑا تھا۔ میں نے پوچھا میں بعض وقت اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور بعد میں اس کے ساتھ دوسرا کتا بھی پاتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر (اس کا شکار) نہ کھاؤ کیونکہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی ہے، دوسرے پر نہیں پڑھی ہے۔

جب بے پر کے تیر یا لکڑی کے عرض سے شکار مارا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

حد یث نمبر - 5477

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا نُرْسِلُ الْكِلَابَ الْمُعَلَّمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَإِنْ قَتَلْنَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَإِنْ قَتَلْنَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَإِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلْ مَا خَزَقَ وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ".

ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے ہمام بن حارث نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم سکھائے ہوئے کتے(شکار پر) چھوڑتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شکار وہ صرف تمہارے لیے رکھے اسے کھاؤ۔ میں نے عرض کیا اگرچہ کتے شکار کو مار ڈالیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ہاں) اگرچہ مار ڈالیں! میں نے عرض کیا کہ ہم بے پر کے تیر یا لکڑی سے شکار کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ان کی دھار اس کو زخمی کر کے پھاڑ ڈالے تو کھاؤ لیکن اگر ان کے عرض سے شکار مارا جائے تو اسے نہ کھاؤ (وہ مردار ہے)۔

تیرکمان سے شکار کرنے کا بیان

وَقَالَ الْحَسَنُ، ‏‏‏‏‏‏وإِبْرَاهِيمُ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا ضَرَبَ صَيْدًا فَبَانَ مِنْهُ يَدٌ أَوْ رِجْلٌ لَا تَأْكُلُ الَّذِي بَانَ وَكُلْ سَائِرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ:‏‏‏‏ إِذَا ضَرَبْتَ عُنُقَهُ أَوْ وَسَطَهُ فَكُلْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدٍ:‏‏‏‏ اسْتَعْصَى عَلَى رَجُلٍ مِنْ آلِ عَبْدِ اللَّهِ حِمَارٌ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَضْرِبُوهُ حَيْثُ تَيَسَّرَ دَعُوا مَا سَقَطَ مِنْهُ وَكُلُوهُ.

اور امام حسن بصری رحمہ اللہ اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب کسی شخص نے بسم اللہ کہہ کر تیر یا تلوار سے شکار کو مارا اور اس کی وجہ سے شکار کا ہاتھ یا پاؤں جدا ہو گیا تو جو حصہ جدا ہو گیا وہ نہ کھاؤ اور باقی کھا لو اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب شکار کی گردن پر یا اس کے درمیان میں مارو تو کھا سکتے ہو اور اعمش نے زید سے روایت کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی آل کے ایک شخص سے ایک نیل گائے بھڑک گئی تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ جہاں ممکن ہو سکے وہیں اسے زخم لگائیں (اور کہا کہ)گورخر کا جو حصہ (مارتے وقت) کٹ کر گر گیا ہو اسے تم چھوڑ دو اور باقی کھا سکتے ہو۔

تیرکمان سے شکار کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 5478

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا بِأَرْضِ قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أَفَنَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ ؟ وَبِأَرْضِ صَيْدٍ أَصِيدُ بِقَوْسِي وَبِكَلْبِي الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ فَمَا يَصْلُحُ لِي ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَإِنْ وَجَدْتُمْ غَيْرَهَا فَلَا تَأْكُلُوا فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَاغْسِلُوهَا، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُوا فِيهَا وَمَا صِدْتَ بِقَوْسِكَ فَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ غَيْرِ مُعَلَّمٍ فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْ".

ہم سے عبداللہ بن یزید مقبری نے بیان کیا، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ربیعہ بن یزید دمشقی نے خبر دی، انہیں ابوادریس عائذ اللہ خولانی نے، انہیں ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ہم اہل کتاب کے گاؤں میں رہتے ہیں تو کیا ہم ان کے برتن میں کھا سکتے ہیں؟ اور ہم ایسی زمین میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہوتا ہے۔ میں تیر کمان سے بھی شکار کرتا ہوں اور اپنے اس کتے سے بھی جو سکھایا ہوا نہیں ہے اور اس کتے سے بھی جو سکھایا ہوا ہے تو اس میں سے کس کا کھانا میرے لیے جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے جو اہل کتاب کے برتن کا ذکر کیا ہے تو اگر تمہیں اس کے سوا کوئی اور برتن مل سکے تو اس میں نہ کھاؤ لیکن تمہیں کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو ان کے برتن کو خوب دھو کر اس میں کھا سکتے ہو اور جو شکار تم اپنی تیر کمان سے کرو اور (تیر پھینکتے وقت) اللہ کا نام لیا ہو تو (اس کا شکار) کھا سکتے ہو اور جو شکار تم نے غیر سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور شکار خود ذبح کیا ہو تو اسے کھا سکتے ہو۔

انگلی سے چھوٹے چھوٹے سنگ ریزے اور غلے مارنا

حد یث نمبر - 5479

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ رَاشِدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّفْظُ لِيَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَخْذِفُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ لَا تَخْذِفْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْخَذْفِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ كَانَ يَكْرَهُ الْخَذْفَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَا يُصَادُ بِهِ صَيْدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُنْكَى بِهِ عَدُوٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهَا قَدْ تَكْسِرُ السِّنَّ وَتَفْقَأُ الْعَيْنَن"، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَآهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَخْذِفُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الْخَذْفِ أَوْ كَرِهَ الْخَذْفَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ تَخْذِفُ، ‏‏‏‏‏‏لَا أُكَلِّمُكَ كَذَا وَكَذَا.

ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع اور یزید بن ہارون نے بیان کیا اور الفاظ حدیث یزید کے ہیں، ان سے کہمس بن حسن نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے، عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کنکری پھینکتے دیکھا تو فرمایا کہ کنکری نہ پھینکو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا ہے یا (انہوں نے بیان کیا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنکری پھینکنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور کہا کہ اس سے نہ شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے البتہ یہ کبھی کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد بھی انہوں نے اس شخص کو کنکریاں پھینکتے دیکھا تو کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تمہیں سنا رہا ہوں کہ آپ نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا یا کنکری پھینکنے کو ناپسند کیا اور تم اب بھی پھینکے جا رہے ہو، میں تم سے اتنے دنوں تک کلام نہیں کروں گا۔

اس کے بیان میں جس نے ایسا کتا پالا جو نہ شکار کے لیے ہو اور نہ مویشی کی حفاظت کے لیے

حد یث نمبر - 5480

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا لَيْسَ بِكَلْبِ مَاشِيَةٍ أَوْ ضَارِيَةٍ، ‏‏‏‏‏‏نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطَانِ".

ہم سے مسلم بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایسا کتا پالا جو نہ مویشی کی حفاظت کے لیے ہے اور نہ شکار کرنے کے لیے تو روزانہ اس کی نیکیوں میں سے دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔

اس کے بیان میں جس نے ایسا کتا پالا جو نہ شکار کے لیے ہو اور نہ مویشی کی حفاظت کے لیے

حد یث نمبر - 5481

حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَالِمًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبًا ضَارِيًا لِصَيْدٍ أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ".

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکاریوں اور مویشی کی حفاظت کی غرض کے سوا جس نے کتا پالا تو اس کے ثواب میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔

اس کے بیان میں جس نے ایسا کتا پالا جو نہ شکار کے لیے ہو اور نہ مویشی کی حفاظت کے لیے

حد یث نمبر - 5482

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ ضَارِيًا نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مویشی کی حفاظت یا شکار کی غرض کے سوا کسی اور وجہ سے کتا پالا اس کے ثواب سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔

جب کتا شکار میں سے خود کھا لے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

وَقَوْلُهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ سورة المائدة آية 4. الصَّوَائِدُ وَالْكَوَاسِبُ اجْتَرَحُوا:‏‏‏‏ اكْتَسَبُوا، ‏‏‏‏‏‏تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ إِلَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ سَرِيعُ الْحِسَابِ سورة المائدة آية 4، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ إِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ فَقَدْ أَفْسَدَهُ إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ سورة المائدة آية 4 فَتُضْرَبُ وَتُعَلَّمُ حَتَّى يَتْرُكَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَهُ ابْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عَطَاءٌ:‏‏‏‏ إِنْ شَرِبَ الدَّمَ وَلَمْ يَأْكُلْ فَكُلْ.

اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ المائدہ میں) فرمایا کہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز کھانی ہمارے لیے حلال کی گئی ہے، آپ کہہ دیں کہ تم پر کل پاکیزہ جانور کھانے حلال ہیں اور تمہارے سدھائے ہوئے شکاری کتوں اور جانوروں کا شکار بھی جو شکار پر چھوڑ جاتے ہیں۔ تم انہیں اس طریقہ پر سکھاتے ہو جس طرح تمہیں اللہ نے سکھایا ہے سو کھاؤ اس شکار کو جسے (شکاری جانور یا کتا) تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں۔ اللہ کے قول بیشک اللہ حساب جلد کر دیتا ہے تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر کتے نے شکار کا گوشت خود بھی کھا لیا تو اس نے شکار کو ناپاک کر دیا کیونکہ اس صورت میں اس نے خود اپنے لیے شکار کو روکا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ میں فرمانا کہ تم انہیں سکھاتے ہو اس میں سے جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے اس لیے ایسے کتے کو پیٹا جائے گا اور سکھایا جاتا رہے گا، یہاں تک کہ شکار میں سے وہ کھانے کی عادت چھوڑ دے۔ ایسے شکار کو ابن عمر رضی اللہ عنہما مکروہ سمجھتے تھے اور عطاء نے کہا کہ اگر صرف شکار کا خون پی لیا ہو اور اس کا گوشت نہ کھایا ہو تو تم کھا سکتے ہو۔

جب کتا شکار میں سے خود کھا لے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

حد یث نمبر - 5483

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَيَانٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّا قَوْمٌ نَصِيدُ بِهَذِهِ الْكِلَابِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ قَتَلْنَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَى نَفْسِهِ وَإِنْ خَالَطَهَا كِلَابٌ مِنْ غَيْرِهَا فَلَا تَأْكُلْ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار کے لیے چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ خواہ وہ شکار کو مار ہی ڈالیں۔ البتہ اگر کتا شکار میں سے خود بھی کھا لے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا اور اگر دوسرے کتے بھی تمہارے کتوں کے سوا شکار میں شریک ہو جائیں تو نہ کھاؤ۔

جب شکار کیا ہوا جانور شکاری کو دو یا تین دن کے بعد ملے تو دہ کیا کرے ؟

حد یث نمبر - 5484

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَسَمَّيْتَ فَأَمْسَكَ وَقَتَلَ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا خَالَطَ كِلَابًا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهَا فَأَمْسَكْنَ وَقَتَلْنَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَيُّهَا قَتَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ رَمَيْتَ الصَّيْدَ فَوَجَدْتَهُ بَعْدَ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ لَيْسَ بِهِ إِلَّا أَثَرُ سَهْمِكَ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ وَقَعَ فِي الْمَاءِ فَلَا تَأْكُلْ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور بسم اللہ بھی پڑھی اور کتے نے شکار پکڑا اور اسے مار ڈالا تو اسے کھاؤ اور اگر اس نے خود بھی کھا لیا تو تم نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکار اس نے اپنے لیے پکڑا ہے اور اگر دوسرے کتے جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس کتے کے ساتھ شکار میں شریک ہو جائیں اور شکار پکڑ کر مار ڈالیں تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس کتے نے مارا ہے اور اگر تم نے شکار پر تیر مارا پھر وہ شکار تمہیں دو یا تین دن بعد ملا اور اس پر تمہارے تیر کے نشان کے سوا اور کوئی دوسرا نشان نہیں ہے تو ایسا شکار کھاؤ لیکن اگر وہ پانی میں گر گیا ہو تو نہ کھاؤ۔

جب شکار کیا ہوا جانور شکاری کو دو یا تین دن کے بعد ملے تو دہ کیا کرے ؟

حد یث نمبر - 5485

وَقَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى:‏‏‏‏ عَنْ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَقْتَفِرُ أَثَرَهُ الْيَوْمَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ ثُمَّ يَجِدُهُ مَيِّتًا وَفِيهِ سَهْمُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَأْكُلُ إِنْ شَاءَ".

اور عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے داؤد بن ابی یاسر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ وہ شکار تیر سے مارتے ہیں پھر دو یا تین دن پر اسے تلاش کرتے ہیں، تب وہ مردہ حالت میں ملتا ہے اور اس کے اندر ان کا تیر گھسا ہوا ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو کھا سکتا ہے۔

شکاری جب شکار کے ساتھ دوسرا کتا پائے تو وہ کیا کرے ؟

حد یث نمبر - 5486

حَدَّثَنَا آدَمُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرْسِلُ كَلْبِي وَأُسَمِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَسَمَّيْتَ فَأَخَذَ فَقَتَلَ فَأَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ"، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي أُرْسِلُ كَلْبِي أَجِدُ مَعَهُ كَلْبًا آخَرَ لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا أَخَذَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى غَيْرِهِ"، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَصَبْتَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ فَلَا تَأْكُلْ".

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی السفر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لیا ہو اور پھر وہ کتا شکار پکڑ کے مار ڈالے اور خود بھی کھا لے تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکار اس نے خود اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے کہا کہ میں کتا شکار پر چھوڑتا ہوں لیکن اس کے ساتھ دوسرا کتا بھی مجھے ملتا ہے اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ کس نے شکار پکڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی ہے دوسرے کتے پر نہیں پڑھی اور میں نے آپ سے بے پر کے تیر یا لکڑی سے شکار کا حکم پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر شکار نوک کی دھار سے مرا ہو تو کھا لیکن اگر تو نے اس کی چوڑائی سے اسے مارا ہے تو ایسا شکار بوجھ سے مرا ہے پس اسے نہ کھا۔

شکار کرنے کو بطور مشغلہ اختیار کرنا

حد یث نمبر - 5487

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي ابْنُ فُضَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَيَانٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّا قَوْمٌ نَتَصَيَّدُ بِهَذِهِ الْكِلَابِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ وَإِنْ خَالَطَهَا كَلْبٌ مِنْ غَيْرِهَا فَلَا تَأْكُلْ".

مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد ابن فضل نے خبر دی، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم اس قوم میں سکونت رکھتے ہیں جو ان کتوں سے شکار کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنا سکھایا ہوا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو تو اگر وہ کتا تمہارے لیے شکار لایا ہو تو تم اسے کھا سکتے ہو لیکن اگر کتے نے خود بھی کھا لیا ہو تو وہ شکار نہ کھاؤ کیونکہ اندیشہ ہے کہ اس نے وہ شکار خود اپنے لیے پکڑا ہے اور اگر اس کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی شکار میں شریک ہو جائے تو پھر شکار نہ کھاؤ۔

شکار کرنے کو بطور مشغلہ اختیار کرنا

حد یث نمبر - 5488

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ. ح وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَبِيعَةَ بْنَ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ عَائِذُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا بِأَرْضِ قَوْمٍ أَهْلِ الْكِتَابِ نَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْضِ صَيْدٍ أَصِيدُ بِقَوْسِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَصِيدُ بِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ وَالَّذِي لَيْسَ مُعَلَّمًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبِرْنِي مَا الَّذِي يَحِلُّ لَنَا مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَمَّا مَا ذَكَرْتَ أَنَّكَ بِأَرْضِ قَوْمٍ أَهْلِ الْكِتَابِ تَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ فَإِنْ وَجَدْتُمْ غَيْرَ آنِيَتِهِمْ فَلَا تَأْكُلُوا فِيهَا وَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَاغْسِلُوهَا ثُمَّ كُلُوا فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ أَنَّكَ بِأَرْضِ صَيْدٍ فَمَا صِدْتَ بِقَوْسِكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ثُمَّ كُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ثُمَّ كُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الَّذِي لَيْسَ مُعَلَّمًا فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْ".

ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے (دوسری سند) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا، مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن المبارک نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا کہ میں نے ربیعہ بن یزید دمشقی سے سنا، کہا کہ مجھے ابوادریس عائذ اللہ نے خبر دی، کہا کہ میں ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اور ان کے برتن میں کھاتے ہیں اور ہم شکار کی زمین میں رہتے ہیں، جہاں میں اپنے تیر سے شکار کرتا ہوں اور اپنے سدھائے ہوئے کتے سے۔ تو اس میں سے کیا چیز ہمارے لیے جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے جو یہ کہا ہے کہ تم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہو اور ان کے برتن میں بھی کھاتے ہو تو اگر تمہیں ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن مل جائیں تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ لیکن ان کے برتنوں کے سوا دوسرے برتن نہ ملیں تو انہیں دھو کر پھر ان میں کھاؤ اور تم نے شکار کی سر زمین کا ذکر کیا ہے تو جو شکار تم اپنے تیر سے مارو اور تیر چلاتے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے بلا سدھائے کتے سے کیا ہو اور اسے ذبح بھی خود ہی کیا ہو تو اسے بھی کھاؤ۔

شکار کرنے کو بطور مشغلہ اختیار کرنا

حد یث نمبر - 5489

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَسَعَوْا عَلَيْهَا حَتَّى لَغِبُوا فَسَعَيْتُ عَلَيْهَا حَتَّى أَخَذْتُهَا فَجِئْتُ بِهَا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ فَبَعَثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَرِكَيْهَا أَوْ فَخِذَيْهَا فَقَبِلَهُ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مرالظہران (مکہ کے قریب ایک مقام) میں ہم نے ایک خرگوش کو ابھارا لوگ اس کے پیچھے دوڑے مگر نہ پایا پھر میں اس کے پیچھے لگا اور میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا کولھا اور دونوں رانیں بھیجیں تو آپ نے انہیں قبول فرما لیا۔

شکار کرنے کو بطور مشغلہ اختیار کرنا

حد یث نمبر - 5490

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ ثُمَّ سَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطًا فَأَبَوْا، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ فَأَبَوْا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَهُ ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى بَعْضُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَدْرَكُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام نافع نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ مکہ کے راستہ میں ایک جگہ پر اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے پیچھے رہ گئے خود ابوقتادہ رضی اللہ عنہ احرام سے نہیں تھے اسی عرصہ میں انہوں نے ایک گورخر دیکھا اور (اسے شکار کرنے کے ارادہ سے) اپنے گھوڑے پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے (جو محرم تھے) کوڑا مانگا لیکن انہوں نے دینے سے انکار کیا پھر اپنا نیزہ مانگا لیکن اسے بھی اٹھانے کے لیے وہ تیار نہیں ہوئے تو انہوں نے وہ خود اٹھایا اور گورخر پر حملہ کیا اور اسے شکار کر لیا پھر بعض نے اس کا گوشت کھایا اور بعض نے کھانے سے انکار کیا۔ اس کے بعد جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کا حکم پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہارے لیے مہیا کیا تھا۔

شکار کرنے کو بطور مشغلہ اختیار کرنا

حد یث نمبر - 5491

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَتَادَةَ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ.

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اسی طرح روایت کیا البتہ اس روایت میں یہ لفظ زیادہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس اس کا کچھ گوشت بچا ہوا ہے یا نہیں۔

اس بیان میں کہ پہاڑوں پر شکار کرنا جائز ہے

حد یث نمبر - 5492

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ الْجُعْفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏ وَأَبِي صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَيْنَ مَكَّةَ والْمَدِينَةِ وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَأَنَا رَجُلٌ حِلٌّ عَلَى فَرَسٍ وَكُنْتُ رَقَّاءً عَلَى الْجِبَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَا أَنَا عَلَى ذَلِكَ إِذْ رَأَيْتُ النَّاسَ مُتَشَوِّفِينَ لِشَيْءٍ فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ حِمَارُ وَحْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُمْ:‏‏‏‏ مَا هَذَا ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ لَا نَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ هُوَ حِمَارٌ وَحْشِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هُوَ مَا رَأَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ نَسِيتُ سَوْطِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُمْ:‏‏‏‏ نَاوِلُونِي سَوْطِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ لَا نُعِينُكَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلْتُ فَأَخَذْتُهُ ثُمَّ ضَرَبْتُ فِي أَثَرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَكُنْ إِلَّا ذَاكَ حَتَّى عَقَرْتُهُ فَأَتَيْتُ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُمْ:‏‏‏‏ قُومُوا فَاحْتَمِلُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا نَمَسُّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمَلْتُهُ حَتَّى جِئْتُهُمْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى بَعْضُهُمْ وَأَكَلَ بَعْضُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُمْ أَنَا أَسْتَوْقِفُ لَكُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدْرَكْتُهُ فَحَدَّثْتُهُ الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ "أَبَقِيَ مَعَكُمْ شَيْءٌ مِنْهُ ؟"، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "كُلُوا فَهُوَ طُعْمٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ".

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے ابوقتادہ کے غلام نافع اور توامہ کے غلام ابوصالح نے کہ انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ دوسرے لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا اور ایک گھوڑے پر سوار تھا۔ میں پہاڑوں پر چڑھنے کا بڑا عادی تھا پھر اچانک میں نے دیکھا کہ لوگ للچائی ہوئی نظروں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے جو دیکھا تو ایک گورخر تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں! میں نے کہا کہ یہ تو گورخر ہے۔ لوگوں نے کہا کہ جو تم نے دیکھا ہے وہی ہے۔ میں اپنا کوڑا بھول گیا تھا اس لیے ان سے کہا کہ مجھے میرا کوڑا دے دو لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اس میں تمہاری کوئی مدد نہیں کریں گے (کیونکہ ہم محرم ہیں) میں نے اتر کر خود کوڑا اٹھایا اور اس کے پیچھے سے اسے مارا، وہ وہیں گر گیا پھر میں نے اسے ذبح کیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس اسے لے کر آیا۔ میں نے کہا کہ اب اٹھو اور اسے اٹھاؤ، انہوں نے کہا کہ ہم اسے نہیں چھوئیں گے۔ چنانچہ میں ہی اسے اٹھا کر ان کے پاس لایا۔ بعض نے تو اس کا گوشت کھایا لیکن بعض نے انکار کر دیا پھر میں نے ان سے کہا کہ اچھا میں اب تمہارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رکنے کی درخواست کروں گا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ سے واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی بچا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا کھاؤ کیونکہ یہ ایک کھانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو کھلایا ہے۔

سورۃ المائدہ کی اس آیت کی تفسیر کہ حلال کیا گیا ہے تمہارے لیے دریا کا شکار کھانا

وَقَالَ عُمَرُ صَيْدُهُ مَا اصْطِيدَ، وَطَعَامُهُ مَا رَمَى بِهِ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الطَّافِي حَلاَلٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ طَعَامُهُ مَيْتَتُهُ إِلاَّ مَا قَذِرْتَ مِنْهَا، وَالْجِرِّيُّ لاَ تَأْكُلُهُ الْيَهُودُ وَنَحْنُ نَأْكُلُهُ. وَقَالَ شُرَيْحٌ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ شَيْءٍ فِي الْبَحْرِ مَذْبُوحٌ. وَقَالَ عَطَاءٌ أَمَّا الطَّيْرُ فَأَرَى أَنْ يَذْبَحَهُ. وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ قُلْتُ لِعَطَاءٍ صَيْدُ الأَنْهَارِ وَقِلاَتِ السَّيْلِ أَصَيْدُ بَحْرٍ هُوَ قَالَ نَعَمْ، ثُمَّ تَلاَ: ‏‏‏‏هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا‏‏‏‏. وَرَكِبَ الْحَسَنُ- عَلَيْهِ السَّلاَمُ- عَلَى سَرْجٍ مِنْ جُلُودِ كِلاَبِ الْمَاءِ. وَقَالَ الشَّعْبِيُّ لَوْ أَنَّ أَهْلِي أَكَلُوا الضَّفَادِعَ لأَطْعَمْتُهُمْ. وَلَمْ يَرَ الْحَسَنُ بِالسُّلَحْفَاةِ بَأْسًا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كُلْ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ مَا صَادَهُ نَصْرَانِيٌّ أَوْ يَهُودِيٌّ أَوْ مَجُوسِيٌّ. وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فِي الْمُرِي ذَبَحَ الْخَمْرَ النِّينَانُ وَالشَّمْسُ.

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دریا کا شکار وہ ہے جو «تدبير» یعنی جال وغیرہ سے شکار کیا جائے اور اس کا کھانا وہ ہے جسے پانی نے باہر پھینک دیا ہو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو دریا کا جانور مر کر پانی کے اوپر تیر کر آئے وہ حلال ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اس کا کھانا سے مراد دریا کا مردار ہے، سوا اس کے جو بگڑ گیا ہو۔ بام، جھینگے، مچھلی کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم (فراغت سے) کھاتے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی شریح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر دریائی جانور مذبوحہ ہے۔ اسے ذبح کی ضرورت نہیں۔ عطاء نے کہا کہ دریائی پرندے کے متعلق میری رائے ہے کہ اسے ذبح کرے۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا، کیا نہروں کا شکار اور سیلاب کے گڑھوں کا شکار بھی دریائی شکار ہے (کہ اس کا کھانا بلا ذبح جائز ہو) کہا کہ ہاں۔ پھر انہوں نے (دلیل کے طور پر) سورۃ النحل کی اس آیت کی تلاوت کی «هذا عذب فرات سائغ شرابه وهذا ملح أجاج ومن كل تأكلون لحما طريا‏» کہ یہ دریا بہت زیادہ میٹھا ہے اور یہ دوسرا دریا بہت زیادہ کھارا ہے اور تم ان میں سے ہر ایک سے تازہ گوشت(مچھلی) کھاتے ہو . اور حسن رضی اللہ عنہ دریائی کتے کے چمڑے سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوئے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر والے مینڈک کھائیں تو میں بھی ان کو کھلاؤں گا اور حسن بصری کچھوا کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دریائی شکار کھاؤ خواہ نصرانی نے کیا ہو یا کسی یہودی نے کیا ہو یا مجوسی نے کیا ہو اور ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شراب میں مچھلی ڈال دیں اور سورج کی دھوپ اس پر پڑے تو پھر وہ شراب نہیں رہتی۔

سورۃ المائدہ کی اس آیت کی تفسیر کہ حلال کیا گیا ہے تمہارے لیے دریا کا شکار کھانا

حد یث نمبر - 5493

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "غَزَوْنَا جَيْشَ الْخَبَطِ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّرَ أَبُو عُبَيْدَةَ فَجُعْنَا جُوعًا شَدِيدًا فَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا مَيِّتًا لَمْ يُرَ مِثْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الْعَنْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خبط میں شریک تھے، ہمارے امیر الجیش ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ہم سب بھوک سے بیتاب تھے کہ سمندر نے ایک مردہ مچھلی باہر پھینکی۔ ایسی مچھلی دیکھی نہیں گئی تھی۔ اسے عنبر کہتے تھے، ہم نے وہ مچھلی پندرہ دن تک کھائی۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک ہڈی لے کر (کھڑی کر دی) تو وہ اتنی اونچی تھی کہ ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔

سورۃ المائدہ کی اس آیت کی تفسیر کہ حلال کیا گیا ہے تمہارے لیے دریا کا شکار کھانا

حد یث نمبر - 5494

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ جَابِرًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ نَرْصُدُ عِيرًا لِقُرَيْشٍ فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ، ‏‏‏‏‏‏فَسُمِّيَ جَيْشَ الْخَبَطِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الْعَنْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلْنَا نِصْفَ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَادَّهَنَّا بِوَدَكِهِ حَتَّى صَلَحَتْ أَجْسَامُنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَصَبَهُ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ وَكَانَ فِينَا رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا اشْتَدَّ الْجُوعُ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ".

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سوار روانہ کئے۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ہمیں قریش کے تجارتی قافلہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی تھی پھر (کھانا ختم ہو جانے کی وجہ سے) ہم سخت بھوک اور فاقہ کی حالت میں تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہم سلم کے پتے (خبط) کھا کر وقت گزارتے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام جیش الخبط پڑ گیا اور سمندر نے ایک مچھلی باہر ڈال دی۔ جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی تیل کے طور پر اپنے جسم پر ملی جس سے ہمارے جسم تندرست ہو گئے۔ بیان کیا کہ پھر ابو عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی کی ہڈی لے کر کھڑی کی تو ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب (قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما) تھے جب ہم بہت زیادہ بھوکے ہوئے تو انہوں نے یکے بعد دیگر تین اونٹ ذبح کر دیئے۔ بعد میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے منع کر دیا۔

ٹڈی کھانا جائز ہے

حد یث نمبر - 5495

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَوْ سِتًّا كُنَّا نَأْكُلُ مَعَهُ الْجَرَادَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏ وَأَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏ وَإِسْرَائِيلُ:‏‏‏‏ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، ‏‏‏‏‏‏سَبْعَ غَزَوَاتٍ.

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات یا چھ غزووں میں شریک ہوئے، ہم آپ کے ساتھ ٹڈی کھاتے تھے۔ سفیان، ابوعوانہ اور اسرائیل نے ابویعفور سے بیان کیا اور ان سے ابن ابی اوفی نے، سات غزوہ کے لفظ روایت کئے۔

مجوسیوں کا برتن استعمال کرنا اور مردار کا کھانا کیسا ہے ؟

حد یث نمبر - 5496

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا بِأَرْضِ أَهْلِ الْكِتَابِ فَنَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَبِأَرْضِ صَيْدٍ أَصِيدُ بِقَوْسِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَصِيدُ بِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ وَبِكَلْبِي الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَمَّا مَا ذَكَرْتَ أَنَّكَ بِأَرْضِ أَهْلِ كِتَابٍ فَلَا تَأْكُلُوا فِي آنِيَتِهِمْ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدُوا بُدًّا فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا بُدًّا فَاغْسِلُوهَا وَكُلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ أَنَّكُمْ بِأَرْضِ صَيْدٍ فَمَا صِدْتَ بِقَوْسِكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْهُ".

ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ربیعہ بن یزید دمشقی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: یا رسول اللہ! ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں اور ان کے برتنوں میں کھاتے ہیں اور ہم شکار کی زمین میں رہتے ہیں اور میں اپنے تیر کمان سے بھی شکار کرتا ہوں اور سدھائے ہوئے کتے سے اور بےسدھائے کتے سے بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے جو یہ کہا ہے کہ تم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہو تو ان کے برتنوں میں نہ کھایا کرو۔ البتہ اگر ضرورت ہو اور کھانا ہی پڑ جائے تو انہیں خوب دھو لیا کرو اور جو تم نے یہ کہا ہے کہ تم شکار کی زمین میں رہتے ہو تو جو شکار تم اپنے تیر کمان سے کرو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو وہ بھی کھاؤ اور جو شکار تم نے اپنے بلا سدھائے ہوئے کتے سے کیا ہو اور اسے خود ذبح کیا ہو اسے کھاؤ۔

مجوسیوں کا برتن استعمال کرنا اور مردار کا کھانا کیسا ہے ؟

حد یث نمبر - 5497

حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا أَمْسَوْا يَوْمَ فَتَحُوا خَيْبَرَ أَوْقَدُوا النِّيرَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "عَلَامَ أَوْقَدْتُمْ هَذِهِ النِّيرَانَ ؟"قَالُوا:‏‏‏‏ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَهْرِيقُوا مَا فِيهَا وَاكْسِرُوا قُدُورَهَا"، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ نُهَرِيقُ مَا فِيهَا وَنَغْسِلُهَا ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَوْ ذَاكَ".

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی عبیدہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح خیبر کی شام کو لوگوں نے آگ روشن کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ آگ تم لوگوں نے کس لیے روشن کی ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ گدھے کا گوشت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہانڈیوں میں کچھ (گدھے کا گوشت) ہے اسے پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ ڈالو۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا ہانڈی میں جو کچھ (گوشت وغیرہ) ہے اسے ہم پھینک دیں اور برتن دھو لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی کر سکتے ہو۔

ذبح پر بسم اللہ پڑھنا اور جس نے اسے قصداً چھوڑ دیا ہو اس کا بیان

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ "مَنْ نَسِيَ فَلَا بَأْسَ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ سورة الأنعام آية 121، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّاسِي لَا يُسَمَّى فَاسِقًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلُهُ:‏‏‏‏ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ سورة الأنعام آية 121.

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر کوئی بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تو کوئی حرج نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه وإنه لفسق‏» اور نہ کھاؤ اس جانور کو جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور بلاشبہ یہ نافرمانی ہے اور (کوئی نیک کام) بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جا سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا قرآن میں فرمان «وإن الشياطين ليوحون إلى أوليائهم ليجادلوكم وإن أطعتموهم إنكم لمشركون‏» اور بیشک شیاطین اپنے دوستوں کو پٹی پڑھاتے ہیں تاکہ وہ تم سے کٹ حجتی کریں اور اگر تم ان کا کہا مانو گے تو البتہ تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔

ذبح پر بسم اللہ پڑھنا اور جس نے اسے قصداً چھوڑ دیا ہو اس کا بیان

حد یث نمبر - 5498

حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصَبْنَا إِبِلًا وَغَنَمًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُخْرَيَاتِ النَّاسِ فَعَجِلُوا فَنَصَبُوا الْقُدُورَ، ‏‏‏‏‏‏فَدُفِعَ إِلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِالْقُدُورِ فَأُكْفِئَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَسَمَ فَعَدَلَ عَشَرَةً مِنَ الْغَنَمِ بِبَعِيرٍ فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ فِي الْقَوْمِ خَيْلٌ يَسِيرَةٌ فَطَلَبُوهُ فَأَعْيَاهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَحَبَسَهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا نَدَّ عَلَيْكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ"، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالَ جَدِّي إِنَّا لَنَرْجُو أَوْ نَخَافُ أَنْ نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلْ لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْهُ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ".

مجھ سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع نے اپنے دادا رافع بن خدیج سے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام ذی الحلیفہ میں تھے کہ (ہم) لوگ بھوک اور فاقہ میں مبتلا ہو گئے پھر ہمیں (غنیمت میں) اونٹ اور بکریاں ملیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پیچھے تھے۔ لوگوں نے جلدی کی بھوک کی شدت کی وجہ سے (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے ہی غنیمت کے جانوروں کو ذبح کر لیا)اور ہانڈیاں پکنے کے لیے چڑھا دیں پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ہانڈیاں الٹ دی گئیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کی تقسیم کی اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ گیا۔ قوم کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی لوگ اس اونٹ کے پیچھے دوڑے لیکن اس نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک شخص نے اس پر تیر کا نشانہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان جانوروں میں جنگلیوں کی طرح وحشت ہوتی ہے۔ اس لیے جب کوئی جانور بھڑک کر بھاگ جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ عبایہ نے بیان کیا کہ میرے دادا (رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو گا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم (دھاردار) لکڑی سے ذبح کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چیز بھی خون بہا دے اور (ذبح کرتے وقت) جانور پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ البتہ (ذبح کرنے والا آلہ) دانت اور ناخن نہ ہونا چاہیئے۔ دانت اس لیے نہیں کہ یہ ہڈی ہے (اور ہڈی سے ذبح کرنا جائز نہیں ہے) اور ناخن کا اس لیے نہیں کہ حبشی لوگ ان کو چھری کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔

وہ جانور جن کو تھانوں اور بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ان کا کھانا حرام ہے

حد یث نمبر - 5499

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ الْمُخْتَارِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَعَبْدَ اللَّهِ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنَّهُ لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ، ‏‏‏‏‏‏وَذَاكَ قَبْلَ أَنْ يُنْزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَا آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ وَلَا آكُلُ إِلَّا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ".

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز یعنی ابن المختار نے بیان کیا، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زید بن عمرو بن نوفل سے مقام بلد کے نشیبی حصہ میں ملاقات ہوئی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے۔ آپ نے وہ دستر خوان جس میں گوشت تھا جسے ان لوگوں نے آپ کی ضیافت کے لیے پیش کیا تھا مگر ان پر ذبح کے وقت بتوں کا نام لیا گیا تھا، آپ نے اسے زید بن عمرو کے سامنے واپس فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جو جانور اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو میں انہیں نہیں کھاتا، میں صرف اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

اس بارے میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جانور کو اللہ ہی کے نام پر ذبح کرنا چاہیئے

حد یث نمبر - 5500

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُنْدَبِ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ضَحَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُضْحِيَةً ذَاتَ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أُنَاسٌ قَدْ ذَبَحُوا ضَحَايَاهُمْ قَبْلَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْصَرَفَ رَآهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ قَدْ ذَبَحُوا قَبْلَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ".

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے اسود بن قیس نے، ان سے جندب بن سفیان بجلی نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز پڑھ کر) واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگوں نے اپنی قربانیاں نماز سے پہلے ہی ذبح کر لی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر لی ہو، اسے چاہیئے کہ اس کی جگہ دوسری ذبح کرے اور جس نے نماز پڑھنے سے پہلے نہ ذبح کی ہو اسے چاہیئے کہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔

بانس ، سفید دھاردار اور لوہار جو خون بہا دے اس کا حکم کیا ہے ؟

حد یث نمبر - 5501

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ ابْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ يُخْبِرُ ابْنَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ:‏‏‏‏ "أَنَّ جَارِيَةً لَهُمْ كَانَتْ تَرْعَى غَنَمًا بِسَلْعٍ فَأَبْصَرَتْ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا مَوْتًا فَكَسَرَتْ حَجَرًا فَذَبَحَتْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِأَهْلِهِ:‏‏‏‏ لَا تَأْكُلُوا حَتَّى آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَنْ يَسْأَلُهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ بَعَثَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَكْلِهَا".

ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، انہوں نے ابن کعب بن مالک سے سنا، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ ان کے گھر ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی (چراتے وقت ایک مرتبہ) اس نے دیکھا کہ ایک بکری مرنے والی ہے۔ چنانچہ اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے بکری ذبح کر دی تو کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ اسے اس وقت تک نہ کھانا جب تک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم نہ پوچھ آؤں یا (انہوں نے یہ کہا کہ) میں کسی کو بھیجوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھ آئے پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یا کسی کو بھیجا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کی اجازت بخشی۔

بانس ، سفید دھاردار اور لوہار جو خون بہا دے اس کا حکم کیا ہے ؟

حد یث نمبر - 5502

حَدَّثَنَا مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ:‏‏‏‏ "أَنَّ جَارِيَةً لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ تَرْعَى غَنَمًا لَهُ بِالْجُبَيْلِ الَّذِي بِالسُّوقِ وَهُوَ بِسَلْعٍ فَأُصِيبَتْ شَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَكَسَرَتْ حَجَرًا فَذَبَحَتْهَا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُمْ بِأَكْلِهَا".

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے بنی سلمہ کے ایک صاحب (ابن کعب بن مالک) نے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ خبر دی کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی اس پہاڑی پر جو سوق مدنی میں ہے اور جس کا نام سلع ہے، بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک بکری مرنے کے قریب ہو گئی تو اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے بکری کو ذبح کر لیا، پھر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔

بانس ، سفید دھاردار اور لوہار جو خون بہا دے اس کا حکم کیا ہے ؟

حد یث نمبر - 5503

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَيْسَ لَنَا مُدًى ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏لَيْسَ الظُّفُرَ وَالسِّنَّ أَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ وَنَدَّ بَعِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَحَبَسَهُ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ لِهَذِهِ الْإِبِلِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا".

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سعید بن مسروق نے، انہیں عبایہ بن رافع نے اور انہیں ان کے دادا (رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ) نے کہ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس چھری نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو (دھار دار) چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو تو (اس سے ذبح کیا ہوا جانور) کھا سکتے ہو لیکن ناخن اور دانت سے ذبح نہ کیا گیا ہو کیونکہ ناخن حبشیوں کی چھری ہے اور دانت ہڈی ہے . اور ایک اونٹ بھاگ گیا تو (تیر مار کر) اسے روک لیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا یہ اونٹ بھی جنگلی جانوروں کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں اس لیے جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔

( مسلمان ) عورت اور لونڈی کا ذبیحہ بھی جائز ہے

حد یث نمبر - 5504

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ:‏‏‏‏ "أَنَّ امْرَأَةً ذَبَحَتْ شَاةً بِحَجَرٍ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَمَرَ بِأَكْلِهَا"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا نَافِعٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ يُخْبِرُ عَبْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ جَارِيَةً لِكَعْبٍ بِهَذَا.

ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں نافع نے، انہیں کعب بن مالک کے ایک بیٹے نے اور انہیں ان کے باپ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک عورت نے بکری پتھر سے ذبح کر لی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کا حکم فرمایا۔ اور لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے قبیلہ انصار کے ایک شخص کو سنا کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خبر دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ کعب رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی تھی پھر اسی حدیث کی طرح بیان کیا۔

( مسلمان ) عورت اور لونڈی کا ذبیحہ بھی جائز ہے

حد یث نمبر - 5505

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاذِ بْنِ سَعْدٍ أَوْ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ جَارِيَةً لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ كَانَتْ تَرْعَى غَنَمًا بِسَلْعٍ فَأُصِيبَتْ شَاةٌ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْرَكَتْهَا فَذَبَحَتْهَا بِحَجَرٍ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كُلُوهَا".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے قبیلہ انصار کے ایک آدمی نے کہ معاذ بن سعد یا سعد بن معاذ نے انہیں خبر دی کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ریوڑ میں سے ایک بکری مرنے لگی تو اس نے اسے مرنے سے پہلے پتھر سے ذبح کر دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھاؤ۔

اس بارے میں کہ جانور کو دانت ، ہڈی اور ناخن سے ذبح نہ کیا جائے

حد یث نمبر - 5506

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ".

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے اور ان سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھاؤ یعنی (ایسے جانور کو جسے ایسی دھاردار چیز سے ذبح کیا گیا ہو) جو خون بہا دے۔ سوا دانت اور ناخن کے (یعنی ان سے ذبح کرنا درست نہیں ہے)۔

دیہاتیوں یا ان کے جیسے ( احکام دین سے بےخبر لوگوں ) کا ذبیحہ کیسا ہے ؟

حد یث نمبر - 5507

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ حَفْصٍ الْمَدَنِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:‏‏‏‏ أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَكُلُوهُ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَكَانُوا حَدِيثِي عَهْدٍ بِالْكُفْرِ، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الدَّرَاوَرْدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَتَابَعَهُ أَبُو خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالطُّفَاوِيُّ.

ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ بن حفص مدنی نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ (گاؤں کے) کچھ لوگ ہمارے یہاں گوشت (بیچنے) لاتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے اس پر اللہ کا نام بھی (ذبح کرتے وقت) لیا تھا یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ تم ان پر کھاتے وقت اللہ کا نام لیا کرو اور کھا لیا کرو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ لوگ ابھی اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اس کی متابعت علی نے دراوردی سے کی اور اس کی متابعت ابوخالد اور طفاوی نے کی۔

اہل کتاب کے ذبیحے اور ان ذبیحوں کی چربی کا بیان

وَقَوْلِهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ سورة المائدة آية 5.

اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا «اليوم أحل لكم الطيبات وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم‏» کہ آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ہیں اور ان لوگوں کا کھانا بھی جنہیں کتاب دی گئی ہے تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔ زہری نے کہا کہ نصاریٰ عرب کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں اور اگر تم سن لو کہ وہ (ذبح کرتے وقت)اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیتا ہے اسے نہ کھاؤ اور اگر نہ سنو تو اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے حلال کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے کفر کا علم تھا۔ علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی جاتی ہے۔ حسن اور ابراہیم نے کہا کہ غیر مختون (اہل کتاب) کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اہل کتاب کے ذبیحے اور ان ذبیحوں کی چربی کا بیان

حد یث نمبر - 5508

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا مُحَاصِرِينَ قَصْرَ خَيْبَرَ فَرَمَى إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِيهِ شَحْمٌ فَنَزَوْتُ لِآخُذَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَفَتُّ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر کے قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ایک تھیلا پھینکا جس میں (یہودیوں کے ذبیحہ کی) چربی تھی۔ میں اس پر جھپٹا کہ اٹھا لوں لیکن مڑ کے جو دیکھا تو پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر شرما گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (آیت میں) «طَعامهم» سے مراد اہل کتاب کا ذبح کردہ جانور ہے۔

اس بیان میں کہ جو پالتو جانور بدک جائے وہ جنگلی جانور کے حکم میں ہے

وَأَجَازَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ "مَا أَعْجَزَكَ مِنَ الْبَهَائِمِ مِمَّا فِي يَدَيْكَ فَهُوَ كَالصَّيْدِ وَفِي بَعِيرٍ تَرَدَّى فِي بِئْرٍ مِنْ حَيْثُ قَدَرْتَ عَلَيْهِ فَذَكِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وابْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةُ".

ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے بھی اس کی اجازت دی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جو جانور تمہارے قابو میں ہونے کے باوجود تمہیں عاجز کر دے (اور ذبح نہ کرنے دے) وہ بھی شکار ہی کے حکم میں ہے اور (فرمایا کہ) اونٹ اگر کنوئیں میں گر جائیں تو جس طرف سے ممکن ہو اسے ذبح کر لو۔ علی، ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کا یہی فتویٰ ہے۔

اس بیان میں کہ جو پالتو جانور بدک جائے وہ جنگلی جانور کے حکم میں ہے

حد یث نمبر - 5509

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا لَاقُو الْعَدُوِّ غَدًا وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْجَلْ أَوْ أَرِنْ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ فَكُلْ، ‏‏‏‏‏‏لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأُحَدِّثُكَ:‏‏‏‏ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ"، ‏‏‏‏‏‏وَأَصَبْنَا نَهْبَ إِبِلٍ وَغَنَمٍ فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ لِهَذِهِ الْإِبِلِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا شَيْءٌ فَافْعَلُوا بِهِ هَكَذَا".

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج نے اور ان سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کل ہمارا مقابلہ دشمن سے ہو گا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جلدی کر لو یا (اس کے بجائے) «أرن» کہا یعنی جلدی کر لو جو آلہ خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ۔ البتہ دانت اور ناخن نہ ہونا چاہیئے اور اس کی وجہ بھی بتا دوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ اور ہمیں غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ پڑا تو ایک صاحب نے تیر سے مار کر گرا لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لیے اگر ان میں سے بھی کوئی تمہارے قابو سے باہر ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔

نحر اور ذبح کے بیان میں

وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ:‏‏‏‏ "لَا ذَبْحَ وَلَا مَنْحَرَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا فِي الْمَذْبَحِ وَالْمَنْحَرِ"، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَيَجْزِي مَا يُذْبَحُ أَنْ أَنْحَرَهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ذَكَرَ اللَّهُ ذَبْحَ الْبَقَرَةِ فَإِنْ ذَبَحْتَ شَيْئًا يُنْحَرُ جَازَ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّحْرُ أَحَبُّ إِلَيَّ وَالذَّبْحُ قَطْعُ الْأَوْدَاجِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَيُخَلِّفُ الْأَوْدَاجَ حَتَّى يَقْطَعَ النِّخَاعَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا إِخَالُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ نَهَى عَنِ النَّخْعِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ يَقْطَعُ مَا دُونَ الْعَظْمِ ثُمَّ يَدَعُ حَتَّى تَمُوتَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً سورة البقرة آية 67، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ سورة البقرة آية 71 وَقَالَ سَعِيدٌ:‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ "الذَّكَاةُ فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وأَنَسٌ:‏‏‏‏ "إِذَا قَطَعَ الرَّأْسَ فَلَا بَأْسَ".

اور جریج نے عطاء سے بیان کیا کہ ذبح اور نحر، صرف ذبح کرنے کی جگہ یعنی (حلق پر) اور نحر کرنے کی جگہ یعنی (سینہ کے اوپر کے حصہ) میں ہی ہو سکتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا جن جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے (حلق پر چھری پھیر کر) انہیں نحر کرنا (سینہ کے اوپر کے حصہ میں چھری مار کر ذبح کرنا) کافی ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اللہ نے (قرآن مجید میں) گائے کو ذبح کرنے کا ذکر کیا ہے پس اگر تم کسی جانور کو ذبح کرو جسے نحر کیا جاتا ہے (جیسے اونٹ) تو جائز ہے لیکن میری رائے میں اسے نحر کرنا ہی بہتر ہے ذبح گردن کی رگوں کا کاٹنا ہے۔ میں نے کہا کہ گردن کی رگیں کاٹتے ہوئے کیا حرام مغز بھی کاٹ دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ میں اسے ضروری نہیں سمجھتا اور مجھے نافع نے خبر دی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حرام مغز کاٹنے سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا صرف گردن کی ہڈی تک (رگوں کو) کاٹا جائے گا اور چھوڑ دیا جائے گا تاکہ جانور مر جائے اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) فرمان «وإذ قال موسى لقومه إن الله يأمركم أن تذبحوا بقرة‏» اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ بلاشبہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔ اور فرمایا «فذبحوها وما كادوا يفعلون‏» پھر انہوں نے ذبح کیا اور وہ کرنے والے نہیں تھے۔ سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ذبح حلق میں بھی کیا جا سکتا ہے اور سینہ کے اوپر کے حصہ میں بھی۔ ابن عمر، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اگر سر کٹ جائے گا تو کوئی حرج نہیں۔

نحر اور ذبح کے بیان میں

حد یث نمبر - 5510

حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ امْرَأَتِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ".

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میری بیوی فاطمہ بنت منذر نے خبر دی ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک گھوڑا نحر کیا اور اسے کھایا۔

نحر اور ذبح کے بیان میں

حد یث نمبر - 5511

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ عَبْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَاطِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَسْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "ذَبَحْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا وَنَحْنُ بِالْمَدِينَةِ فَأَكَلْنَاهُ".

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے عبدہ سے سنا، انہوں نے ہشام سے، انہوں نے فاطمہ سے اور ان سے اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے ایک گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا اس وقت ہم مدینہ میں تھے۔

نحر اور ذبح کے بیان میں

حد یث نمبر - 5512

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ". تَابَعَهُ وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ فِي النَّحْرِ.

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے ایک گھوڑے کو نحر کیا (اس کے سینے کے اوپر کے حصہ میں چھری مار کر) پھر اسے کھایا۔ اس کی متابعت وکیع اور ابن عیینہ نے ہشام سے «نحر‏.‏» کے ذکر کے ساتھ کی۔

زندہ جانور کے پاؤں وغیرہ کاٹنا یا اسے بند کر کے تیر مارنا یا باندھ کر اسے تیروں کا نشانہ بنانا جائز نہیں ہے

حد یث نمبر - 5513

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ مَعَ أَنَسٍ عَلَى الْحَكَمِ بْنِ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى غِلْمَانًا أَوْ فِتْيَانًا نَصَبُوا دَجَاجَةً يَرْمُونَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُصْبَرَ الْبَهَائِمُ".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے ہشام بن زید نے، کہا کہ میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حکم بن ایوب کے یہاں گیا، انہوں نے وہاں چند لڑکوں کو یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اس پر تیر کا نشانہ لگا رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ جانور کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔

زندہ جانور کے پاؤں وغیرہ کاٹنا یا اسے بند کر کے تیر مارنا یا باندھ کر اسے تیروں کا نشانہ بنانا جائز نہیں ہے

حد یث نمبر - 5514

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَغُلَامٌ مِنْ بَنِي يَحْيَى رَابِطٌ دَجَاجَةً يَرْمِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَشَى إِلَيْهَا ابْنُ عُمَرَ حَتَّى حَلَّهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَقْبَلَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبِالْغُلَامِ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ازْجُرُوا غُلَامَكُمْ عَنْ أَنْ يَصْبِرَ هَذَا الطَّيْرَ لِلْقَتْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى أَنْ تُصْبَرَ بَهِيمَةٌ أَوْ غَيْرُهَا لِلْقَتْلِ".

ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسحاق بن سعید بن عمرو نے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ وہ یحییٰ بن سعید کے یہاں تشریف لے گئے۔ یحییٰ کی اولاد میں ایک بچہ ایک مرغی باندھ کر اس پر تیر کا نشانہ لگا رہا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مرغی کے پاس گئے اور اسے کھول لیا پھر مرغی کو اور بچے کو اپنے ساتھ لائے اور یحییٰ سے کہا کہ اپنے بچہ کو منع کر دو کہ اس جانور کو باندھ کر نہ مارے کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے کسی جنگلی جانور یا کسی بھی جانور کو باندھ کر جان سے مارنے سے منع فرمایا ہے۔

زندہ جانور کے پاؤں وغیرہ کاٹنا یا اسے بند کر کے تیر مارنا یا باندھ کر اسے تیروں کا نشانہ بنانا جائز نہیں ہے

حد یث نمبر - 5515

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَمَرُّوا بِفِتْيَةٍ أَوْ بِنَفَرٍ نَصَبُوا دَجَاجَةً يَرْمُونَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ مَنْ فَعَلَ هَذَا ؟"إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ مَنْ فَعَلَ هَذَا". تَابَعَهُ سُلَيْمَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ.

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا وہ چند جوانوں یا (یہ کہا کہ) چند آدمیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک مرغی باندھ رکھی تھی اور اس پر تیر کا نشانہ لگا رہے تھے جب انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو وہاں سے بھاگ گئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا یہ کون کر رہا تھا؟ ایسا کرنے والوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔ اس کی متابعت سلیمان نے شعبہ سے کی ہے۔

 

حَدَّثَنَا الْمِنْهَالُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ"لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَثَّلَ بِالْحَيَوَانِ". وَقَالَ عَدِيٌّ:‏‏‏‏ عَنْسَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم سے منہال نے بیان کیا، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر لعنت بھیجی ہے جو کسی زندہ جانور کے پاؤں یا دوسرے ٹکڑے کاٹ ڈالے۔ اور عدی نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔

زندہ جانور کے پاؤں وغیرہ کاٹنا یا اسے بند کر کے تیر مارنا یا باندھ کر اسے تیروں کا نشانہ بنانا جائز نہیں ہے

حد یث نمبر - 5516

حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ"نَهَى عَنْ النُّهْبَةِ وَالْمُثْلَةِ".

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو عدی بن ثابت نے خبر دی، کہا کہ میں نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رہزنی کرنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔

مرغی کھانے کا بیان

حد یث نمبر - 5517

حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى يَعْنِي الْأَشْعَرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ دَجَاجًا".

ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے، ان سے زہدم جرمی نے، ان سے ابوموسیٰ یعنی الاشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کھاتے دیکھا ہے۔

مرغی کھانے کا بیان

حد یث نمبر - 5518

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ أَبِي تَمِيمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَهْدَمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ جَرْمٍ إِخَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ بِطَعَامٍ فِيهِ لَحْمُ دَجَاجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ جَالِسٌ أَحْمَرُ فَلَمْ يَدْنُ مِنْ طَعَامِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ادْنُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي رَأَيْتُهُ أَكَلَ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْنُ أُخْبِرْكَ أَوْ أُحَدِّثْكَ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ فَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَحْمَلْنَاهُ فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبٍ مِنْ إِبِلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَيْنَ الْأَشْعَرِيُّونَ أَيْنَ الْأَشْعَرِيُّونَ ؟"قَالَ:‏‏‏‏ فَأَعْطَانَا خَمْسَ ذَوْدٍ غُرَّ الذُّرَى فَلَبِثْنَا غَيْرَ بَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي:‏‏‏‏ نَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا اسْتَحْمَلْنَاكَ فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَظَنَنَّا أَنَّكَ نَسِيتَ يَمِينَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ هُوَ حَمَلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا".

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب بن ابی تمیمہ نے بیان کیا، ان سے قاسم نے، ان سے زہدم جرمی نے بیان کیا کہ ہم سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے ہم میں اور اس قبیلہ جرم میں بھائی چارہ تھا پھر کھانا لایا گیا جس میں مرغی کا گوشت بھی تھا، حاضرین میں ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ کھانے میں شریک نہیں ہوا، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ تم بھی شریک ہو جاؤ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تھا اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے اور میں نے قسم کھا لی ہے کہ اب اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شریک ہو جاؤ میں تمہیں خبر دیتا ہوں یا انہوں نے کہا کہ میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر حاضر ہوا، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپ خفا تھے آپ صدقہ کے اونٹ تقسیم فرما رہے تھے۔ اسی وقت ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ کا سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا لی کہ آپ ہمیں سواری کے لیے اونٹ نہیں دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس تمہارے لیے سواری کا کوئی جانور نہیں ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غنیمت کے اونٹ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اشعری کہاں ہیں، اشعری کہاں ہیں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ سفید کوہان والے اونٹ دے دیئے۔ تھوڑی دیر تک تو ہم خاموش رہے لیکن پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم بھول گئے ہیں اور اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قسم کے بارے میں غافل رکھا تو ہم کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔ چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے آپ سے سواری کے اونٹ ایک مرتبہ مانگے تھے تو آپ نے ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہ دینے کی قسم کھا لی تھی ہمارے خیال میں آپ اپنی قسم بھول گئے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے تمہیں سواری کے لیے جانور عطا فرمایا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا تو کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں کوئی قسم کھا لوں اور پھر بعد میں مجھ پر واضح ہو جائے کہ اس کے سوا دوسری چیز اس سے بہتر ہے اور پھر وہی میں نہ کروں جو بہتر ہے، میں قسم توڑ دوں گا اور وہی کروں گا جو بہتر ہو گا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کر دوں گا۔

گھوڑے کا گوشت کھانے کا بیان

حد یث نمبر - 5519

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَاطِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَسْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "نَحَرْنَا فَرَسًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلْنَاهُ".

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے فاطمہ نے اور ان سے اسماء رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا اور اسے کھایا۔

گھوڑے کا گوشت کھانے کا بیان

حد یث نمبر - 5520

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جنگ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت فرما دی تھی اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی رخصت دی تھی۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

فِيهِ:‏‏‏‏ عَنْ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

اس باب میں سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5521

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَنَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا"نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ يَوْمَ خَيْبَرَ".

ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں سالم اور نافع نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کر دی تھی۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5522

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ". تَابَعَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، کہا مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کی تھی۔ اس روایت کی متابعت ابن مبارک نے کی تھی، ان سے نافع نے اور ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے سالم نے اسی طرح سے بیان کیا۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5523

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ وَالْحَسَنِ ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُتْعَةِ عَامَ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ لُحُومِ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں محمد بن علی کے بیٹے عبداللہ اور حسن نے اور انہیں ان کے والد نے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ خیبر کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کے کھانے سے منع فرما دیا تھا۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5524

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ وَرَخَّصَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا اور گھوڑوں کے لیے رخصت فرما دی تھی۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5525

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَدِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی نے بیان کیا اور ان سے براء اور ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5526

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَدِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی نے بیان کیا اور ان سے براء اور ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5527

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ:‏‏‏‏ أَنَّ أَبَا إِدْرِيسَ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا ثَعْلَبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لُحُومَ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ". تَابَعَهُ الزُّبَيْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏ وَعُقَيْلٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏ وَمَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏ وَالْمَاجِشُونُ، ‏‏‏‏‏‏ وَيُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنُ إِسْحَاقَ:‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ"نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ".

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں ابوادریس نے خبر دی اور ان سے ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھے کا گوشت کھانا حرام قرار دیا تھا۔ اس روایت کی متابعت زبیدی اور عقیل نے ابن شہاب سے کی ہے۔ مالک، معمر، ماجشون، یونس اور ابن اسحاق نے زہری سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر پھاڑ کر کھانے والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5528

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ "أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ جَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أُكِلَتِ الْحُمُرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَهُ جَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أُكِلَتِ الْحُمُرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَهُ جَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أُفْنِيَتِ الْحُمُرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى فِي النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ فَإِنَّهَا رِجْسٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأُكْفِئَتِ الْقُدُورُ وَإِنَّهَا لَتَفُورُ بِاللَّحْمِ".

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں محمد نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا کہ میں نے گدھے کا گوشت کھا لیا ہے پھر دوسرے صاحب آئے اور کہا کہ میں نے گدھے کا گوشت کھا لیا ہے پھر تیسرے صاحب آئے اور کہا کہ گدھے ختم ہو گئے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کرایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہیں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ ناپاک ہیں چنانچہ اسی وقت ہانڈیاں الٹ دی گئیں حالانکہ وہ (گدھے کے) گوشت سے جوش مار رہی تھیں۔

پالتو گدھوں کا گوشت کھانا منع ہے

حد یث نمبر - 5529

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَمْرٌو:‏‏‏‏ قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ:‏‏‏‏ "يَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ حُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ كَانَ يَقُولُ ذَاكَ الْحَكَمُ بْنُ عَمْرٍو الْغِفَارِيُّ عِنْدَنَا بِالْبَصْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ أَبَى ذَاكَالْبَحْرُ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَرَأَ:‏‏‏‏ قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا سورة الأنعام آية 145.

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن زید رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ حکم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ نے ہمیں بصرہ میں یہی بتایا تھا لیکن علم کے سمندر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس سے انکار کیا اور (استدلال میں) اس آیت کی تلاوت کی «قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما‏» ۔

ہر پھاڑ کر کھانے والے درندے ( پرندے ) کے گوشت کھانے کے بارے میں

حد یث نمبر - 5530

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ". تَابَعَهُ يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏ وَمَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنُ عُيَيْنَةَ/a>، ‏‏‏‏‏‏ وَالْمَاجِشُونُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ.

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابوادریس خولانی نے اور وہ ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر پھاڑ کھانے والے درندوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔ اس روایت کی متابعت یونس، معمر، ابن عیینہ اور ماجشون نے زہری کی سند سے کی ہے۔

مردار جانور کی کھال کا کیا حکم ہے ؟

حد یث نمبر - 5531

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ:‏‏‏‏ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِشَاةٍ مَيِّتَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلَّا اسْتَمْتَعْتُمْ بِإِهَابِهَا ؟ قَالُوا إِنَّهَا مَيِّتَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا حَرُمَ أَكْلُهَا".

ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مری ہوئی بکری کے قریب سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اس کے چمڑے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مری ہوئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے۔

مردار جانور کی کھال کا کیا حکم ہے ؟

حد یث نمبر - 5532

حَدَّثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتِ بْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَنْزٍ مَيِّتَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا عَلَى أَهْلِهَا ؟ لَوِ انْتَفَعُوا بِإِهَابِهَا".

ہم سے خطاب بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حمیر نے بیان کیا، ان سے ثابت بن عجلان نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرے ہوئے بکرے کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ اس کے مالکوں کو کیا ہو گیا ہے اگر وہ اس کے چمڑے کو کام میں لاتے (تو بہتر ہوتا)۔

مشک کا استعمال جائز ہے

حد یث نمبر - 5533

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَا مِنْ مَكْلُومٍ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَكَلْمُهُ يَدْمَى اللَّوْنُ لَوْنُ دَمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالرِّيحُ رِيحُ مِسْكٍ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو زخمی بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہو گیا ہو اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے زخم سے جو خون جاری ہو گا اس کا رنگ تو خون ہی جیسا ہو گا مگر اس میں مشک جیسی خوشبو ہو گی۔

مشک کا استعمال جائز ہے

حد یث نمبر - 5534

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّوْءِ، ‏‏‏‏‏‏كَحَامِلِ الْمِسْكِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَافِخِ الْكِيرِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، ‏‏‏‏‏‏وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً".

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے بردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔

خرگوش کا گوشت حلال ہے

حد یث نمبر - 5535

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا وَنَحْنُ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَعَى الْقَوْمُ فَلَغِبُوا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ بِهَا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَبَحَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثَ بِوَرِكَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ بِفَخِذَيْهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَبِلَهَا".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے ایک خرگوش کا پیچھا کیا۔ ہم مرالظہران میں تھے۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے اور تھک گئے پھر میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کے دونوں کولہے یا (راوی نے بیان کیا کہ) اس کی دونوں رانیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبول فرمایا۔

ساہنہ کھانا جائز ہے

حد یث نمبر - 5536

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "الضَّبُّ لَسْتُ آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ساہنہ میں خود نہیں کھاتا لیکن اسے حرام بھی نہیں قرار دیتا۔

ساہنہ کھانا جائز ہے

حد یث نمبر - 5537

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّهُ:‏‏‏‏ "دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ مَيْمُونَةَ فَأُتِيَ بِضَبٍّ مَحْنُوذٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُ النِّسْوَةِ:‏‏‏‏ أَخْبِرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا يُرِيدُ أَنْ يَأْكُلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هُوَ ضَبٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعَ يَدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَحَرَامٌ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ خَالِدٌ:‏‏‏‏ فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ.

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوامامہ بن سہل نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور ان سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھنا ہوا ساہنہ لایا گیا آپ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن بعض عورتوں نے کہا کہ آپ جو کھانا دیکھ رہے ہیں اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دو، عورتوں نے کہا کہ یہ ساہنہ ہے یا رسول اللہ! چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ حرام ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ ہمارے ملک میں نہیں پایا جاتا اس لیے طبیعت اس سے انکار کرتی ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کھایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔

جب جمے ہوئے یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہا پڑ جائے تو کیا حکم ہے

حد یث نمبر - 5538

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَيْمُونَةَ:‏‏‏‏ "أَنَّ فَأْرَةً وَقَعَتْ فِي سَمْنٍ فَمَاتَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلْقُوهَا وَمَا حَوْلَهَا وَكُلُوهُ"، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لِسُفْيَانَ فَإِنَّ مَعْمَرًا يُحَدِّثُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَقُولُ إِلَّا عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَيْمُونَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مِرَارًا.

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک چوہا گھی میں پڑ کر مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چوہے کو اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو اور باقی گھی کو کھاؤ۔ سفیان سے کہا گیا کہ معمر اس حدیث کو زہری سے بیان کرتے ہیں کہ ان سے سعید بن مسیب اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے یہ حدیث زہری سے صرف عبیداللہ سے بیان کرتے سنی ہے کہ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، ان سے میمونہ رضی اللہ عنہا نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور میں نے یہ حدیث ان سے بارہا سنی ہے۔

جب جمے ہوئے یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہا پڑ جائے تو کیا حکم ہے

حد یث نمبر - 5539

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الدَّابَّةِ تَمُوتُ فِي الزَّيْتِ وَالسَّمْنِ وَهُوَ جَامِدٌ أَوْ غَيْرُ جَامِدٍ الْفَأْرَةِ أَوْ غَيْرِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمَرَ بِفَأْرَةٍ مَاتَتْ فِي سَمْنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِمَا قَرُبَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَطُرِحَ ثُمَّ أُكِلَ"، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ.

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں محمد بن عبداللہ بن شہاب زہری نے کہ اگر کوئی جانور چوہا یا کوئی اور جمے ہوئے یا غیر جمے ہوئے گھی یا تیل میں پڑ جائے تو اس کے متعلق کہا کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوہے کہ متعلق جو گھی میں مر گیا تھا، حکم دیا کہ اسے اور اس کے چاروں طرف سے گھی نکال کر پھینک دیا جائے اور پھر باقی گھی کھایا گیا۔ ہمیں یہ حدیث عبیداللہ بن عبداللہ کی سند سے پہنچی ہے۔

جب جمے ہوئے یا پگھلے ہوئے گھی میں چوہا پڑ جائے تو کیا حکم ہے

حد یث نمبر - 5540

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْمَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَأْرَةٍ سَقَطَتْ فِي سَمْنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلْقُوهَا وَمَا حَوْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُوهُ".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ بن عبداللہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اور ان سے میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چوہے کا حکم پوچھا گیا جو گھی میں گر گیا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چوہے کو اور اس کے چاروں طرف سے گھی کو پھینک دو پھر باقی گھی کھا لو۔

جانوروں کے چہروں پر داغ دینا یا نشان کرنا کیسا ہے ؟

حد یث نمبر - 5541

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَنْظَلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ تُعْلَمَ الصُّورَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُضْرَبَ". تَابَعَهُ قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْعَنقْزِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَنْظَلَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "تُضْرَبُ الصُّورَةُ".

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے حنظلہ نے، ان سے سالم نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ وہ چہرے پر نشان لگانے کو ناپسند کرتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے سے منع کیا ہے۔ عبیداللہ بن موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی روایت کیا، کہا ہم کو عمرو بن محمد عنقزی نے خبر دی، انہوں نے حنظلہ سے۔

جانوروں کے چہروں پر داغ دینا یا نشان کرنا کیسا ہے ؟

حد یث نمبر - 5542

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَخٍ لِي يُحَنِّكُهُ وَهُوَ فِي مِرْبَدٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُهُ يَسِمُ شَاةً، ‏‏‏‏‏‏حَسِبْتُهُ قَالَ:‏‏‏‏ فِي آذَانِهَا".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید نے ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بھائی (عبداللہ بن ابی طلحہ نومولود) کو لایا تاکہ آپ اس کی تحنیک فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اونٹوں کے باڑے میں تشریف رکھتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ ایک بکری کو داغ رہے تھے (شعبہ نے کہا کہ)میں سمجھتا ہوں کہ (ہشام نے) کہا کہ اس کے کانوں کو داغ رہے تھے۔

اگر مجاہدین کی کسی جماعت کو غنیمت ملے

لحَدِيثِ رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ طَاوُسٌ، ‏‏‏‏‏‏وعِكْرِمَةُ، ‏‏‏‏‏‏فِي ذَبِيحَةِ السَّارِقِ، ‏‏‏‏‏‏اطْرَحُوهُ.

اور ان میں سے کچھ لوگ اپنے دوسرے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر (تقسیم سے پہلے) غنیمت کی بکری یا اونٹ میں سے کچھ ذبح کر لیں تو ایسا گوشت کھانا حلال نہیں ہے بوجہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے۔ طاؤس اور عکرمہ نے چور کے ذبیحہ کے متعلق کہا کہ اسے پھینک دو (معلوم ہوا کہ وہ کھانا حرام ہے)۔

اگر مجاہدین کی کسی جماعت کو غنیمت ملے

حد یث نمبر - 5543

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّنَا نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ فَكُلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏مَا لَمْ يَكُنْ سِنٌّ وَلَا ظُفُرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ:‏‏‏‏ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الظُّفْرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ"، ‏‏‏‏‏‏وَتَقَدَّمَ سَرَعَانُ النَّاسِ فَأَصَابُوا مِنَ الْغَنَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَصَبُوا قُدُورًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ وَقَسَمَ بَيْنَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَعَدَلَ بَعِيرًا بِعَشْرِ شِيَاهٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَدَّ بَعِيرٌ مِنْ أَوَائِلِ الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا مِثْلَ هَذَا".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے بیان کیا، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبایہ کے دادا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو گا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آلہ خون بہا دے اور (جانوروں کو ذبح کرتے وقت) اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھاؤ بشرطیکہ ذبح کا آلہ دانت اور ناخن نہ ہو اور میں اس کی وجہ تمہیں بتاؤں گا۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے اور جلدی کرنے والے لوگ آگے بڑھ گئے تھے اور غنیمت پر قبضہ کر لیا تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے کے صحابہ کے ساتھ تھے چنانچہ (آگے پہنچنے والوں نے جانور ذبح کر کے) ہانڈیاں پکنے کے لیے چڑھا دیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں الٹ دینے کا حکم فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت لوگوں کے درمیان تقسیم کی۔ اس تقسیم میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر آپ نے قرار دیا تھا پھر آگے کے لوگوں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے پھر ایک شخص نے اس اونٹ پر تیر مارا اور اللہ تعالیٰ نے اسے روک لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جانور بھی کبھی وحشی جانوروں کی طرح بدکنے لگتے ہیں۔ اس لیے جب ان میں سے کوئی ایسا کرے تو تم بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کرو۔

جب کسی قوم کا کوئی اونٹ بدک جائے اور ان میں سے کوئی شخص خیر خواہی کی نیت سے اسے تیر سے نشانہ لگا کر مار ڈالے تو جائز ہے ؟

لِخَبَرِ رَافِعٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔

جب کسی قوم کا کوئی اونٹ بدک جائے اور ان میں سے کوئی شخص خیر خواہی کی نیت سے اسے تیر سے نشانہ لگا کر مار ڈالے تو جائز ہے ؟

حد یث نمبر - 5544

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَدَّ بَعِيرٌ مِنَ الْإِبِلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ لَهَا أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ"، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَكُونُ فِي الْمَغَازِي وَالْأَسْفَارِ فَنُرِيدُ أَنْ نَذْبَحَ فَلَا تَكُونُ مُدًى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَرِنْ مَا نَهَرَ أَوْ أَنْهَرَ الدَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ فَكُلْ غَيْرَ السِّنِّ وَالظُّفُرِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ السِّنَّ عَظْمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالظُّفُرَ مُدَى الْحَبَشَةِ".

ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عمر بن عبید الطنافسی نے خبر دی، انہیں سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے، ان سے ان کے دادا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک اونٹ بدک کر بھاگ پڑا، پھر ایک آدمی نے تیر سے اسے مارا اور اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لیے ان میں سے جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائیں، ان کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ رافع نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اکثر غزوات اور دوسرے سفروں میں رہتے ہیں اور جانور ذبح کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس چھریاں نہیں ہوتیں۔ فرمایا کہ دیکھ لیا کرو جو آلہ خون بہا دے یا (آپ نے بجائے «نهر» کے)«أنهر» فرمایا اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ۔ البتہ دانت اور ناخن نہ ہو کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبش والوں کی چھری ہے۔

جو شخص بھوک سے بےقرار ہو ( صبر نہ کر سکے ) وہ مردار کھا سکتا ہے

لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ‏‏‏‏ 172 ‏‏‏‏ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ سورة البقرة آية 172-173. وَقَالَ:‏‏‏‏ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لإِثْمٍ سورة المائدة آية 3، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلِهِ:‏‏‏‏ فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ ‏‏‏‏ 118 ‏‏‏‏ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ ‏‏‏‏ 119 ‏‏‏‏ سورة الأنعام آية 118-119، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلِهِ جَلَّ وَعَلَا:‏‏‏‏ قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا سورة الأنعام آية 145. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ مُهْرَاقًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة الأنعام آية 145 وَقَالَ:‏‏‏‏ فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ‏‏‏‏ 114 ‏‏‏‏ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ‏‏‏‏ 115 ‏‏‏‏ سورة النحل آية 114-115.

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا مسلمانو! ہم نے جو پاکیزہ روزیاں تم کو دی ہیں ان میں سے کھاؤ اور اگر تم خاص کر اللہ کو پوجنے والے ہو (تو ان نعمتوں پر) اس کا شکر ادا کرو اللہ نے تو تم پر بس مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا اور کسی کا نام پکارا جائے حرام کیا ہے پھر جو کوئی بھوک سے بے قرار ہو جائے بشرطیکہ بےحکمی نہ کرے نہ زیادتی تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ اور اللہ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا پھر جو کوئی بھوک سے لاچار ہو گیا ہو اس کو گناہ کی خواہش نہ ہو۔ اور سورۃ الانعام میں فرمایا جن جانوروں پر اللہ کا نام لیا جائے ان کو کھاؤ اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو اور تم کو کیا ہو گیا ہے جو تم ان جانوروں کو نہیں کھاتے جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اور اللہ نے تو صاف صاف ان چیزوں کو بیان کر دیا جن کا کھانا تم پر حرام ہے وہ بھی جب تم لاچار نہ ہو جاؤ (لاچار ہو جاؤ تو ان کو بھی کھا سکتے ہو) اور بہت لوگ ایسے ہیں جو بغیر جانے بوجھے اپنے من مانے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور تیرا مالک ایسے حد سے بڑھ جانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اور اللہ نے سورۃ الانعام میں فرمایا اے پیغمبر! کہہ دے کہ جو مجھ پر وحی بھیجی گئی اس میں کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام نہیں جانتا البتہ اگر مردار ہو یا بہتا خون یا سور کا گوشت تو وہ حرام ہے کیونکہ وہ پلید ہے یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا اور کسی کا نام پکارا گیا ہو پھر جو کوئی بھوک سے لاچار ہو جائے بشرطیکہ بےحکمی نہ کرے نہ زیادتی تو تیرا مالک بخشنے والا مہربان ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «مسفوحا» کے معنی بہتا ہوا خون اور سورۃ النحل میں فرمایا اللہ نے جو تم کو پاکیزہ روزی دی ہے حلال اس کو کھاؤ اور جو تم خالص اللہ کو پوجنے والے ہو تو اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، اللہ نے بس تم پر مردار حرام کیا ہے اور بہتا ہوا خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا اور کسی کا نام پکارا جائے پھر جو کوئی بےحکمی اور زیادتی کی نیت نہ رکھتا ہو لیکن بھوک سے مجبور ہو جائے (وہ ان چیزوں کو بھی کھا لے) تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔